حضرت مولانا دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ان کی نامور شہرہ آفاق کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہٗ (پھلت)۔
بستہ کاندھے پر ڈالے پیدل کھتولی سے پھلت کی طرف جاتے دیکھ کر انہوں نے مجھے سائیکل دے دی اور کہا کہ آپ پھلت جارہے ہیں‘ میری سائیکل لیتے جائیں‘ انہیں اس کا وہم بھی نہ ہوگا کہ گیارہویں کلاس میں پڑھنے والا کوئی آدمی سائیکل چلانا نہ جانتا ہوگا‘ اس احقر کو بھی یہ بتاتے ہوئے شرم آئی کہ مجھے سائیکل چلانا نہیں آتی‘ سائیکل چلانا نہ سیکھنے کی وجہ یہ تھی کہ سائیکل چلانا سیکھنے کے دوران کئی ساتھیوں کے گر کر چوٹیں آئی تھیں اس لیے سائیکل چلانا سیکھنا بہت مشکل لگتا تھا اور ڈر کی وجہ سے اتنی عمر میں بھی مجھے سائیکل چلانی نہیں آتی تھی‘ سائیکل پر بستہ لٹکا کر پیدل سائیکل لیے پھلت کے راستہ میں آرہا تھا‘ راستہ میں کئی لوگوں نے سوال کیا‘ کیا بات ہے تم سائیکل لے کر پیدل کیوں جارہے ہو؟ کیا سائیکل خراب ہے‘ ایک دو لوگوں کو مبہم سا جواب دیا‘ مگر کب تک‘ یہ کہتے شرم آتی تھی کہ مجھے سائیکل چلانا نہیں آتی‘ لوگ کہیں گے کہ اتنی بڑی عمر میں سائیکل چلانا نہیں آتی۔ اس شرم میں ہمت کرکے راستہ کے کنارے ایک مینڈکے قریب سائیکل کو کھڑا کیا اور پاؤں مینڈ پر رکھ کر سائیکل کی گدی پر سوار ہوا اور چلانا شروع کی‘ کسی سائیکل سکھانے والے کا اتنا قول ذہن میں تھا کہ سائیکل سیکھنے یا چلانے والے کو ہینڈل یا پہیہ کو نہیں بلکہ دور منزل کی طرف نگاہ رکھنی چاہیے الحمدللہ سائیکل چلنی شروع ہوگئی‘ یہ حقیر 20 منٹ میں پھلت آپہنچا اور الحمدللہ آج تک کسی سے سائیکل چلانا سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑی اور کبھی گر کر چوٹ بھی نہیں آئی اور آج تک اس حقیر کو خیال آتا ہے کہ سائیکل چلانا کتنا آسان ہے‘ یہ بھی کوئی سیکھنے کی چیز ہے بس اتنی بات یاد رہے کہ منزل کی طرف نگاہ ہو۔
یہ ایک سائیکل چلانے کی ہی بات نہیں‘ زندگی میں آدمی ہر اس کام کو مشکل سمجھتا ہے جس کو کرتا نہیں اور کچھ ذرا اصول کو نہ جاننے والے لوگوں کی بے اصولی کی وجہ سے گر کر چوٹ کھاتا رہتا ہے‘ کروڑوں لوگ دنیا میں سائیکل چلاتے ہیں مگر گر کر چوٹ کھانے والے بس چند لوگ ہی ہوتے ہیں لیکن ہر وہ شخص سائیکل مشکل سمجھ کر سیکھنے سے ڈرتا ہے جس نے سائیکل چلائی نہیں اور خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ باریک سے پہیوں پر سائیکل کھڑی نہیں ہوسکتی تو وہ چلتے ہوئے ضرور گرے گی۔ یہ اصول فطرت خیال میں نہیں ہوتا کہ سائیکل تب ہی گرتی ہے جب رکی ہوتی ہے چلتے ہوئے نہیں گرتی اور چوٹ جب ہی لگتی ہے جب منزل کی طرف نگاہ نہیں ہوتی۔
کچھ اسی طرح کا معاملہ دعوت اسلام کے سلسلہ میں امت کا ہوا ہے کہ کرکے دیکھا نہیں اور ایک زمانے سے تقریباً کرنا چھوڑ دیا ہے اس لیے وہ ہمیں مشکل بلکہ بعض لوگوں کو ناممکن سا لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس کو سرداری حکومت اور اپنی محبوبیت کی منزل حاصل کرنے کیلئے دعوت کی سائیکل پر سوار کیا تھا ہم نے چلانا چھوڑ دی‘ منزل پر نگاہ نہیں تو ہم گرگر جارہے ہیں اور اس ذلت کے غار میں گرنے کا علاج صرف یہ ہے کہ خیر امت کا مقام اور اپنی سرداری کی منزل حاصل کرنے کیلئے دعوت کی گاڑی کو آگے چلائیں اور دور سے خوف اور ڈر سے سہمنے کی بجائے میدان دعوت میں عملاً قدم رکھیں‘ اس راہ محبوب میں سفر کرنے والے ہر خوش قسمت داعی حق کا تجربہ ہے کہ یہ کاردعوت کتنا آسان ہے‘ جس کو نہ کرنے کی وجہ سے ہم کس قدر مشکل سمجھتے ہیں خصوصاً آج کے اس دور میں جب علم اور عقل کا زمانہ ہے اور آدمی اپنی معلومات کو تجربہ اور پریکٹیکل کی بنا پر پرکھتا ہے‘ ذرائع ابلاغ کی فراوانی ہے اور سچ کی تلاش اورجستجو ترقی پسندی کی پہچان سمجھی جاتی ہے اور گھسے پٹے رواجوں کی لکیروں پر جمے رہنا بہت دقیانوسی اور گھٹیا بات سمجھی جاتی ہے علم و عقل کے اس دور میں صرف اسلام انسانیت کو مطمئن کرسکتا ہے۔
کاش! ہم اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھا کر میدان دعوت میں آگے آئیں اور بلکتی اور سسکتی انسانیت کو اسلام اور ایمان سے سیراب کرنے کیلئے اپنا فرض منصبی ادا کریں اور پھر کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کریں کہ یہ کار دعوت جس سے دور رہنے کی وجہ سے ہم اتنا مشکل سمجھ رہے تھے کتنا آسان ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں